سیتاپور لوجہادمعاملہ
ٹرائل کورٹ سے دو خواتین سمیت چھ ملزمین کی ضمانت منظور،
 ہم ضمانت سے مطمئن نہیں،مقدمہ خارج ہونا چاہئے تھا: مولانا سید ارشد مدنی
نئی دہلی 26/ مارچ2021
اتر پردیش کے ضلع سیتاپور کے قصبہ تمبور کے لو جہاد معاملے میں گذشتہ چار ماہ سے جیل میں مقید 6 ملزمین جس میں دو خواتین بھی شامل ہیں کو آج  ستیاپورکی ٹرائل کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔ ٹرائل عدالت کے جج بھگوان داس گپتا نے ملزمین جنتن ابراہیم، افسر جہاں اسرائیل، شمشاد، رفیق اسماعیل، جاوید شاکر علی اور محمد عاقب منصوری کی ضمانت منظورکرلی ہے، جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ رضوان، ایڈوکیٹ مجاہد احمد اور ایڈوکیٹ فرقان خان نے ملزمین کی ضمانت کے لئے عرضی داخل کی تھی۔ دوران بحث ایڈوکیٹ رضوان اور ایڈوکیٹ فرقان خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ پولس نے عرضی گذار ملزمین کو حراست میں لیکر آئین ہند کے ذریعہ دی گئی ان کی شخصی آزادی ختم کردی ہے اور اس معاملے میں پولس نے چارج شیٹ بھی داخل کردی ہے لہذا ملزمین کو فوراً ضمانت پر رہا کیا جائے۔وکلا نے عدالت کو بتایاکہ ملزمین کے خلاف 26 نومبر کو مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ 28 نومبر 2020 کو اتر پردیش کے گورنر آنندی بین پٹیل نے ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020“  Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Conversion of Religion Ordinance, 2020  پر دستخط کئے یعنی کہ اس مقدمہ پر غیر قانونی طور پر اس قانون کا اطلاق کیا گیا ہے جو غیر قانونی ہے جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ لڑکی واپس آگئی ہے اور اس نے پولس کو دیئے گئے اپنے بیان میں  کہا ہے کہ اسے جبراً مذہب تبدیل کرنے کے لئے اکسایا نہیں گیا ہے اور نہ ہی اسے اغوا کیا گیا تھا لہذا لڑکی کے بیان کی روشنی میں ملزمین کو فو راً جیل سے رہا کیا جانا چائے جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے  ملزمین کو  مشروط ضمانت پر رہا کئے جانے کے احکامات جاری کئے۔جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ جس قانون کے تحت یہ گرفتاریاں ہوئی تھیں وہ ملک کے آئین کے رہنمااصولوں کے سراسرخلاف ہے اس لئے ہم ضمانت سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ ضمانت کی جگہ انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ عدالت یہ مقدمہ خارج کردیتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا، عدالتی نظام کی سست رفتاری پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پولس کسی بے گناہ کو ذاتی عنادیاتعصب کی بناپر گرفتارکرکے جیل بھیج دے تو اس کو بھی انصاف کے حصول میں مہینوں اورسالوں لگ جاتے ہیں، اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس معاملہ میں ملزم ٹہرائے گئے نوجوان کے پورے خاندان کو تعصب کی بنیادپر پولس نے گرفتارکرلیا تھا جن میں پردہ نشیں خواتین بھی شامل تھیں، انصاف اورقانون کا تقاضہ تویہ تھا کہ اصل ملزم کو ہی پولس گرفتارکرتی مگر اس نے ریاستی حکومت کے دباؤمیں ان لوگوں کو ہی گرفتارکرلیا جن کا کوئی جرم نہیں تھا، سوال یہ ہے کہ پولس نے مذکورہ خاندان کے ساتھ جو توہین آمیزسلوک کیا اس کی تلافی کس طرح ہوگی؟ کیا یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے؟کیا یہ معززعدالت کا فرض نہیں تھا کہ وہ پولس کو اس کے لئے سرزنش کرتی تاکہ آئندہ کے لئے یہ بات ایک نظیر بن جاتی اور پھر پولس کسی بے گناہ کو اس طرح ذیل کرنے کا حوصلہ نہ کرپاتی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان کی رہائی کے احکامات تب جاری کئے جب لڑکی یہ بیان دے چکی ہے کہ اسے کسی نے نہیں بھگایا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئی تھی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس تعصب پر مبنی آئین مخالف قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑرہے ہیں، درمیان میں عدالتوں کے ذریعہ ریاستی سرکارکو نہ صرف لتاڑاگیا بلکہ اس سے حلف نامہ داخل کرنے کو بھی کہا گیا مگر اس کے باوجود تبدیلی مذہب  روکنے والے اس آڈیننس پر اب ریاستی گورنرسے بھی دستخط کرالیا گیا ہے، اب تک اس نئے قانون کے تحت جتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں اور خودریاستی حکومت نے عدالت کو جو اعدادوشمارپیش کئے ہیں اس کے مطابق ان گرفتاریوں میں 99فیصدمسلمان ہیں یہ بات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ قانون مسلم نوجوانوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کی غرض سے ہی لایا گیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ چھ ملزمین جس میں دو خواتین بھی ہیں کی ضمانت منظور ہونے پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر لکھنوء ہائی کورٹ میں ملزمین کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرنے کی پٹیشن داخل کی گئی ہے لیکن سنوائی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ملزمین کی ضمانت پرر ہائی کی درخواست عدالت میں داخل کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں راحت دی ہے۔ بقیہ ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت بھی داخل کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ تمبورتھانہ میں شرویش کمارشکلانے اپنی انیس سالہ بیٹی کے کسی کے ساتھ بھاگ جانے کی ایف آئی آر26نومبر 2020کو درج کرائی تھی، پولس تفتیش کے دوران پتاچلاکہ جبرئیل نامی نوجوان سے اس کی دوستی تھی اور دونوں ساتھ میں بھاگے ہیں۔ مقامی تھانہ دارنے جبرئیل کے پورے خاندان کو ایف آئی آرمیں نامزدکردیا اور باری باری کنبہ کے تمام افرادبشمول دوخواتین کے گرفتارکرلیا تھا جن میں سے آج چھ کی ضمانت ہوچکی ہے۔