ممبئی میں منعقدہ جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میںپیش کی جانے والی تجاویز
تجویز تعزیت برائے زلزلہ زدگان ترکی و شام
جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس ان دردناک حوادث پر اپنے گہرے تاثر اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ جو ترکی اور شام کے حالیہ قیامت خیز زلزلہ کی وجہ سے پیش آئے ، اس زلزلہ نے لمحوں میں ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور سیکڑوں بستیوں کو یکایک کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ اتنے بڑے پیمانہ پر انسانی آبادی کی تباہی اور بربادی یقیناً پورے عالم انسانیت کے لئے افسوس اور اضطراب کا موجب ہے۔مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس ان تمام مصیبت زدگان کے ساتھ ۔جنکی زندگی ان حوادث کا شکار ہوئی۔ دلی ہمدردی رکھتا ہے اور ان کی آباد کاری اور دست گیری کو ایک اہم انسانی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے عالم اسلام سے بھر پور امداد کی اپیل کرتا ہے ، صدراردوگان اورحکومت ترکیہ میں فوری طورپر مصیبت زدگان کی خدمات کو انجام دی ہیں ، مجلس منتظمہ اس کو استحکام کی نظرسے دیکھتاہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت میں مراتب عالیہ عنایت کرے اور پسماندگان کو صبر کی دولت عطا کرے ۔ آمین۔
 بے قصورمظلوم مسلم نوجوانوں کی قانونی امدد سے متعلق تجویز
 ملک کے آئین و قانون نے ہر شہری کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا ہے یہاں تک کہ پھانسی کی سزاہونے پر رحم کی پٹیشن داخل کرنے کا اختیاربھی ملک کا آئین اورقانون دیتاہے ، ملک کا قانون یہ بھی کہتا کہ جب تک عدالت کا حتمی فیصلہ نہ آ جائے اس وقت تک کسی بھی ملزم کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔دہشت گردی کے مقدمات میںجہاں تک جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکا سوال ہے توجمعیۃعلماء ہند اسی آئینی اورقانونی اختیارات کا استعمال کرتے ہوے ملزمین کو قانونی مدد فراہم کر رہی ہے۔دوسری بنیادی وجہ یہ کہ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ گرفتارنوجوانوں میں سے اکثر خاندان مقدمے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔چنانچہ جب اس طرح کے لوگ جمعیۃ علماء ہند سے رابطہ کرتے ہیں تو تحقیق کے بعدا نہیں قانونی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
 جمعیۃ علما ہندپر الزام تراشی کرنے والا جانبدارمیڈیااور فرقہ پرست کیا نہیں جانتے کہ عدالت میں اگر کوئی ملزم وکیل کرنے کی حیثیت میں نہیں ہوتا تو اسے سرکاری طور پر وکیل فراہم کیا جاتا ہے۔اس کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ عدالتی کاروائی میں کسی کوتاہی کے سبب کہیں کوئی بے گناہ انصاف سے محروم نہ ہو جائے۔چنانچہ اس طرح کے متعدد معاملوں میں جمعیت علماء ہند کی قانونی مدد کے نتیجے میں بے گناہوں کو انصاف ملا اوروہ باعزت بری ہوئے ہیں۔یہ افسوس ناک سچائی بھی  پوری طرح اجاگر ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کے بیشتر معاملوں میں پولس اور سیکوریٹی ایجنسیوں نے ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے کی سازش کے تحت جانبدارانہ اور ظالمانہ رو یہ اختیار کیا۔چنانچہ جب اس طرح کے معاملے اعلی عدالتوں میں گئے تو پولس کی تمام تر تھیوری اور سٹوری ناکام ہوگئی اور ملزمین باعزت رہا ہوئے۔اکشر دھام مندر کا معاملہ اس کا بین ثبوت ہے جس میں سپریم کورٹ نے بے گناہوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسنے پر گجرات پولس کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔ دہشت گردی کے ہی معاملوں میں ابھینو بھارت اور اس جیسی دوسری تنظیموں کے لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیںکیا ان کے لئے عدالتوں میں قانونی جنگ نہیں لڑی جارہی ہے ؟، پرگیہ ٹھاکر اورکرنل پروہت جو دہشت گردی کے ہی الزام میںماخوذکئے گئے، کیا انہیں قانونی امدادفراہم نہیںکی جارہی ہے ، اگر قانونی امدادفراہم کی جارہی ہے تو مسلم نو جوانوں کی گرفتاری یا سزا کے خلاف جو قانونی جنگ لڑی جارہی ہے اسے غلط کیوں اور کیسے قراردیا جاسکتاہے ؟
 جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس ببانگ دہل یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے سراسر خلاف ہیں جولوگ بے گناہوں کی زندگیاں لیتے ہیں انہیں ہرگز ہرگزانسان نہیں کہا جاسکتا، ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ جولوگ بھی دہشت گردانہ سر گرمیوں میں ملوث پائے جائیں انہیں سخت سے سخت سزاملنی چاہئے  لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پولس جس کو مسلمان کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال کر زندگی برباد کر دے۔جمعیۃ علماء ہند ایسے ہی مظلوم لوگوں کی قانونی مدد کر رہی ہے اور ایسا کرنے کا اختیار اسے ملک کے آئین اورقانون نے دیا ہے ، جو کچھ کررہی ہے وہ ملک کے آئینی وقانونی نظام کے دائرہ کارمیں ہے اور اس پر کسی طرح کا کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ہے ۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی سے متعلق تجویز 
مرکزی کابینہ نے 19؍جولائی 2020ء کو نئی تعلیمی پالیسی 2020کے نام سے منظوری دیدی ہے جو تقریبا65صفحات پر مشتمل ہے ۔نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ حکومت ، ہندواحیا پرستی کو فروغ دینا چاہتی ہے ، ہندومذہبی روایات ، تہذیب وثقافت اداروں میں داخل کرکے جمہوریت ومساوات کے تصورکو نکال باہر کرناچاہتی ہے ، نئی تعلیمی پالیسی کی وجہ سے عملاًتاریخ کی کتابوں میں تبدیلیاں شروع ہوگئی ہیں ، نیا نصاب تیارکیا جارہا ہے ، کتابیں تبدیل کی جارہی ہیں، این سی آرٹی کی جگہ نیا ادارہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ، نصاب میں تخفیف کے بہانے سیکولرزم اورشہری حقوق سے متعلق اسباق کو نکالاجارہاہے ، نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس اورمذہبی کتابوں کی تعلیم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے ، ایسے نازک وقت میں اسلامی اداروں کا تحفظ ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے ۔ 
جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کایہ اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ مدارس اسلامیہ میں درس نظامی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا ایسا نظام ہوکہ طالب علم میزان تک پہنچتے پہنچتے دسویں یا بارہویں سے فارغ ہوچکاہو،تاکہ درس نظامی کی بنیادی تعلیم متاثرنہ ہو، اسکول کی عمارت مدرسہ سے الگ بنائی جائے اگرمستقل عمارت ممکن نہ ہوسکے توعارضی طورپر انتظام کرکے اس میںکام شروع کیا جائے اور دینی ماحول میں ہائی اسکول انٹروغیرہ کی کوچنگ کراکر امتحان دلانے کانظم کیاجائے ، پرائمری شعبہ کو جونیئر ہائی اسکول تک بڑھایا جائے ، اردودینیات کے ساتھ انگلش ، میتھ، ہندی اوروسائنس کی این سی آرٹی کے مطابق کتابیں نصاب میں داخل کی جائیں ،سوسائٹی یاٹرسٹ بناکر رجسٹریشن کرایا جائے اورسالانہ حساب سی اے کے ذریعہ آڈٹ کراکر صاف وشفاف رکھاجائے ۔
اسرائیل کی جارحیت اور مظلوم فلسطینیوں سے متعلق تجویز
جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس بیت المقدس، غزہ اور فلسطین کے دیگر مقامات پر اسرائیلی فوجوں کی جارحیت اور وحشیانہ حملوں اور مظالم کی شدید مذمت کرتاہے اور یہ سمجھتاہے کہ یہ جارحیت اسرائیل کے مستقل دہشت گردی پر مبنی منصوبوں کا حصہ ہے،جس کے تحت وہ پرتشدد کاروائیوں کے ذریعہ فلسطینیوں کے علاقوں کو خالی کراتا ہے اور وہاں عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے یہودیوں کو بساتا ہے اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر بچوں ،بوڑھوں عورتوں کے بشمول عام شہریوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سچ یہ ہے کہ عالمی برادری کی خاموشی سے شہ پاکر اسرائیل اب نہتے اورلاچار فلسطینی عوام سے ان کے جینے کا حق چھین لینے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔دنیا اس تاریخی سچائی سے انکارکرنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ اسرائیل ایک غاصب ملک ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور ان ہی کی شہ پر اب اس سرزمین سے فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کر دینے کے در پے ہے، اس دوران مصالحت اور مفاہمت کی لاتعدادکوششیں ہوئیں، لیکن سب کی سب بے سودرہیں ، اسرائیل کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ وہ فلسطین کے تعلق سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی اپنے پیروں تلے روندتا چلا آرہا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس اسرائیل کے تازہ حملوں کو انسانی حقوق پر ہونے والا سنگین حملہ تصور کرتا ہے ۔ افسوس کہ آج کی وہ مہذب دنیا بھی اس پر خاموش ہے جو عالمی امن اور اتحادکی نقیب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ، انسانی حقوق کا مسلسل راگ الاپنے والے عالمی ادارے بھی چپ ہیں ۔ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا مذاکرات کے ذریعہ کوئی حل نہ نکالاجاسکے ، عالمی برادری بالخصوص دنیا کے وہ طاقتورممالک جو اقوام متحدہ کے مستقل ممبرہیں اگر وہ مخلص ہوتے تو اس مسئلہ کا بھی کوئی پر امن اورقابل قبول حل نکال سکتے تھے ، مگر افسوس اس مسئلہ کا حتمی اورپائیدارحل نکال نے کی کوئی ذمہ دارانہ کوشش کبھی نہیں ہوئی۔ اسرائیل کے لیے بربریت انتہاپسندی اور اس کی مستقبل کی خطرناک منصوبہ بندی ظاہر کردیتی ہے کہ یہ صہیونیت اور اسلام کی ایک جنگ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین ہو ، یا عالمی ادارے  یا پھر دنیاکے بااثر ممالک، کوئی بھی کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا، بلکہ ان کی طرف سے اگر کوئی بیان بھی جاری ہوتاہے تو نپے تلے الفاظ ہوتے ہیں اوردرپردہ اس میں اسرائیل کی حمایت ہی شامل ہوتی ہے ۔جمعیۃ علما ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس اقوام متحدہ یورپی یونین ،ورلڈ مسلم لیگ ، حکومت ہند اورتمام انصاف پسند بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتا ہےکہ وہ اسرائیل کی جارحانہ دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کریں، جمعیۃ علما ہند کا یہ اجلاس فلسطینیوں کے کاز کی حمایت کرتے ہوئے ان کے ہمت اور حوصلہ ، صبر و استقامت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور دعاگو ہے کہ اللہ ان کے حوصلے اور ہمت کو بلند رکھے اور ان کی نصرت کرے۔(آمین)
ہجومی تشدد ( ماب لنچنگ) اور فرقہ وارانہ فسادات کے انسداد سے متعلق تجویز
ملک میں فرقہ پرستی اور فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کی ایک طویل تاریخ ہے، فسادات سے ملک میں جانی  و مالی نقصانات کی ایک لمبی فہرست ہے، جمعیۃ علماء ہند آزادی کے بعد سے مسلسل فسادات کی روک تھام وعوامی مفادات کے تحفظ اور انکی مالی و قانونی امداد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔جمعیۃ علماء ہند ہجومی تشدد کو بھی سخت تشویش کی نگاہوں سے دیکھتی ہے جس کی وجہ سے ملک کے شہری اپنے ہی وطن میں ہجومی تشدد کا شکار ہو کر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ملک کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس سنگین مسئلہ پر خاموش تماشائی بنی ہو ئی ہیںجس کی وجہ سے مختلف طبقات کے درمیان بھائی چارہ اورہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچ رہاہے اور عدل و انصاف کا خون ہو رہا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس عام قابل فخر دستور کی روشنی میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس تشویش ناک صورت حال کو جائز تصور نہیں کر سکتااور حکومت ہند سے پر زور مطالبہ کر تا ہے کہ اس خطرناک صورت حال میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی ہدایت کے مطابق ملک میں قانون کی بالا دستی کو بحال کر ے، امن و آشتی قائم کرنے کی اپنی دستوری ذمہ داری کو پوری کرے اور ایسے موثر اقدامات کرے جس سے شہریوں کو بلا امتیاز جان و مال کا تحفظ اور انصاف فراہم ہو ۔
 عالم اسلام اور مشرق وسطیٰ سے متعلق تجویز
حالیہ دنوں میں بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلی جمعیۃ علماء ہند کی نظر میں نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ کئی معنوں میں بہت اہم بھی ہے، یک محوری دنیا میں اب تک عالم اسلام اور دنیا کے زیادہ تر ممالک کا مکمل جھکاؤمغربی طاقتوں کی طرف تھا،لیکن روس اور یوکرین کی جنگ سے ایک تبدیلی سامنے آئی ہے۔ایشیائی ممالک میں کہیں نہ کہیں یہ احساس شد ت سے پیدا ہوا ہے کہ ایشیا میں رہتے ہوئے ہمیں اپنی ترقی اور بقاء کے لئے نیز اسرائیل کی فتنہ پردازیوں کا مقابلہ کرنے لئے ایشیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ رہنا چاہیے۔پچھلے دنوں سفارتی سطح پر جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے وہ اس بدلی ہوئی سوچ اور حکمت عملی کا صاف اشارہ ہے ۔ یوں بھی پچھلی کچھ دہائیوں کا اگر باریکی سے تجزیہ کیا جائے، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مغربی طاقتوںنے مسائل سلجھانے کے بجائے اسلامی ممالک کو مسائل میں الجھائے رکھنے کی درپردہ کوشش زیادہ کی ہے۔اس کی بنیادی وجہ اسرائیل سے ان کی فطری محبت اور ہتھیاروں کا کاروبار ہے۔مغربی طاقتیں ابتدا سے ہی اسرائیل کی سرپرست اور معاون رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں کو وہ ویٹو کرتی رہی ہیں۔دکھاوے کیلئے انہوں نے فسلطینیوں سے ہمدردی تو دکھائی لیکن اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت کو نہ تو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس مسئلے کو حل کرانے کی کوئی ایماندارانہ پہل کی لیکن اب منظرنامہ بدل رہا ہے۔ ایشیا اور مشرق وسطی کے تناظر میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس اس تبدیل ہوتے منظر نامے کو مثبت نظریے سے دیکھتا ہے۔روس اور یوکرین کی جنگ نے ایشیامیں ایک ایسے سفارتی اتحاد کی راہ بھی ہموار رکردی ہے،جس کے انتہائی دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ فلسطین کے کازکواس سے تقویت مل سکتی ہے ، ایشیا اور مشرق وسطی میں امن کے قیام کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔چین کے ساتھ ایشیائی ممالک کے روابط میں اضافہ ، اپنے آپ  میں ایک بڑاواقعہ ہے اس سے جہاں بین الاقوامی سطح پر ایشیاکی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہے وہیں چین میں آ باد ایغور اور دوسرے مسلمانوںکے تعلق سے چین کے رویے میں مثبت تبدیلی بھی آسکتی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ تبدیلی ایشااور مشرق وسطی میں امن و استحکام اور ترقی کا مضبوط سبب بن سکتی ہے اور اسرائیل اور اس کے ہمنوا ممالک کی حیثیت کمزور ہو سکتی ہے، ایسی صورت میں جمعیۃ علماء ہند کو اس تبدیلی میں خیر کا پہلو نظر آتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کیلئے جمعیۃ علماء ہند کے جاری وظائف اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام
  سچرکمیٹی کی رپورٹ کو منظرعام پر آئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے لیکن مسلمانوں کی اقتصادی اورتعلیمی پسماندگی میں اب بھی کوئی قابل قدربہتری نہیں آسکی ہے ، اس کی بنیادی وجہ غربت ہے ، سچرکمیٹی نے بھی کھلے لفظوں میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ غربت کی وجہ سے بڑی تعدادمیں ذہین اور محنتی مسلم بچے درمیان میں ہی اپنی تعلیم چھوڑدینے پر مجبورہوجاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ مسلم طبقہ کی سماجی واقتصادی پسماندگی ختم نہیں ہوپاتی۔اعلیٰ اورخاص طورپیشہ ورانہ تعلیم کے لئے تعلیمی وظائف شروع کرنے کے پس پشت جمعیۃعلماء ہند کا بنیادی مقصدیہی ہے کہ قوم کے ذہین بچے محض مالی پریشانی کی وجہ سے اپنی تعلیم ترک کرنے پر مجبورنہ ہوسکیں، کیونکہ اگرایساہوگا تو یہ قوم اورملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
 ایسی سنگین صورتحال میں  جمعیۃعلماء ہند نے تعلیمی سال 2022-2023 میں میرٹ کی بنیادپر منتخب ہونے والے 1165طلباء کو وظائف جاری کئے اور اس سال ضرور ت مند طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے  وظائف کی مجموعی رقم ایک کروڑ سے بڑھاکردوکروڑکردی گئی ہے ،  جمعیۃ علماء ہند نے مالی طورپر غریب ،ذہین اور محنتی طلباء کے لئے اعلیٰ اورپیشہ ورانہ تعلیم کے حصول میں مددکرنے کا ۲۰۲۱ میں فیصلہ کیا   اوراس اہم مقصد کے حصول کے لئے  ایک تعلیمی امدادی فنڈقائم کر کے ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی  جو میرٹ کی بنیادپر ہر سال طلباء کو منتخب کرنے کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند جن کورسیزکے لئے وظائف دیتی ہے، ان میں میڈیکل ، انجینئرنگ ، بی ٹیک ، ایم ٹیک ، پالی ٹکنک، گریجویشن میں بی ایس سی ، بی کام ، بی اے ، بی بی اے ، ماس کمیونیکیشن ، ایم کام ، ایم ایس سی ، ڈپلومہ آئی ٹی آئی جیسے کورسیز شامل ہیں۔جمعیۃعلماء ہند کا دائرہ کاربہت وسیع ہے اوروسائل انتہائی محدود ہیں لیکن الحمد للہ گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں اس سال زیادہ تعدادمیں ضرورت مند طلباء کو اسکالرشپ دی گئی ہے  جمعیۃعلماء ہند نے تعلیمی فنڈ میںمزید اضافہ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آیندہ بر سوں میں زیادہ سے زیادہ تعدادمیں بلا امتیاز مذہب ضرورت مند طلباء کی مددکی جاسکے ۔مسلمانوں کا دیگر شہریوں سے اعلیٰ تعلیم میں پیچھے رہ جانا بھی قابل توجہ ہے ،دین دشمن ماحول میں مسلمان بچے اور بچیوں کا فتنئہ ارتداد سے بچانا بھی ضروری ہے اس لئے جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس موجودہ حالات میں اپیل کرتا ہے کہ صاحب ثروت مسلمان آگے آئیں  اور اپنے بچے اور بچیوں کو ارتداد سے بچانے کے لئے الگ الگ تعلیمی دارے قائم کریں اس کے لئے اجتماعی کوشش کریں اور مستحکم روڈ میپ تیار کریں تاکہ قوم کے بچے اور بچیاں اپنی تہذیب و ثقافت خصوصاً پردے کے اہتمام کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے مذہب پر بھی قائم رہیں۔
یکساں سول کوڈ سے متعلق تجویز
جمعیۃ علماء ہند یکساں سول کوڈ کی مخالف ہے، کیونکہ یہ آئین میں شہریوں کو دفعہ 25,29,30 میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے سراسر منافی ہے، ہندوستان کے دستور میں سیکولرزم کے معنی یہ ہیںکہ ملک کا  اپنا کوئی مذہب نہیں ہے یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ہے  اور ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے  ہند وستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کہ جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے امن اور یکجہتی کے ساتھ رہتے آئے ہیں وہاں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی بات اتہائی حیرت انگیز ہے  بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص فرقہ کو ذہن میں رکھ کر اکثریت کو گمراہ کرنے کے لئے آئین کی دفعہ 44 کی آڑ لی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بات تو آئین میں کہی گئی ہے، حالانکہ خود آر آر ایس کے دوسرے سرسنچالک گرو گول والکر نے کہا کہ’’یونیفارم سول کوڈ بھارت کے لئے غیر فطری اور اس کے تنوعات کے منافی ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات رہنما ہدایات کے ضمن میں کہی گئی ہے (مشورہ دیا گیا ہے) وہیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے آئین کے باب ۳ کے تحت درج بنیادی دفعات میں کسی بھی ادارہ کو خواہ وہ پارلمنٹ ہو یا سپریم کورٹ تبدیلی کا اختیار نہیں ہے ،آئین تو آزادی کے بعد تیار ہوا جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں سے اس ملک میں لوگ اپنے اپنے مذہبی اصول پر عمل پیرا رہے ہیں لوگوں کے مذہبی عقائد اور رواج مختلف رہے ہیں مگر ان میں کبھی کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا نہیںہوئی، درحقیقت ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ یہ کہہ کر اکثریت کوگمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کی بات آئین کا حصہ ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے، ملک میں قانون وانتظام کی صورتحال کو بر قرار رکھنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعات موجود ہیں ان کے تحت ہی مختلف جرائم کے لئے سزائیں دی جاتی ہیں اور ان کے دائرہ میں ملک کے تمام شہری آتے ہیں، البتہ ملک کی اقلیتوں، قبائل اور بعض دوسری برادریوں کو مذہبی وسماجی قانون کے تحت آزادی دی گئی ہے کیونکہ مذہبی خاندانی وسماجی ضابطوں سے ہی مختلف مذہبی برادریوں اورگرپوں کی شناخت وابستہ ہیں اور یہی ملک کی یکجہتی، سا  لمیت اور اتحا د کی بنیاد ہے، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مطالبہ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قد غن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔جمعیۃ علماء ہند روز اول سے اس سازش کی مخالفت کرتی آئی ہے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ یکساں سول کوڈپر اصرار شہریوں کی مذہبی آزادی اور آئین کی اصل روح کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے اور آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ، مسلمانوں کے لئے نا قابل قبول اورملک یکجہتی اور سا  لمیت کے لئے نقصاندہ ہے۔   
جمہوریت اور سیکولرزم سے متعلق تجویز
ہندوستان کے دستور میں سیکولرزم کے معنی ہیں کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، یہ تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا اور ملک کے ہر شہری کو یکساں مذہبی آزاء حاصل ہے، جمہوریت کا بھی یہی مفہوم ہے کہ حکومت فرقہ واریت سے آزاد ہو کر، وہ کسی بھی فرقے کے مذہبی رجحانات کی پابند اور اس کے اثرات سے متاثر نہ ہو۔ مجلس منتظمہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ ا جلاس جمہوریت اور سیکولرزم کی اس تشریح کو صحیح سمجھتے ہوئے صرف مسلمان نہیں بلکہ ہندوستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور فرقوں کے درمیان اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے اس حقیقت کا اعتراف اور اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ضروری سمجھتا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ اس وقت ملک میں فرقہ پرستی کی ایک آندھی چل رہی ہے، جس نے پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے، کھانے پینے، پہننے اور بولنے پر جس طرح پابندی لگائی جارہی ہے، اس سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور پیار ومحبت کی فضاء مکدر ہوگئی ہے۔ نئی نسل کے ذہن میں منفی سوچ پیدا ہورہی ہے، جس سے نو جوانوں میں تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے، ایک مخصوص فکر اور نظریات کے حامل مجرمین کی باعزت رہائی اور پھر حکومتی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی نے لوگوں کے دلوں میں مزید دہشت اور خوف پیدا کر دیا ہے، ایسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور ترقی کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری طور پر ایسے اقدامات پر روک لگائے جو جمہوریت، انصاف اور مساوات کے تقاضوں کے خلاف اور اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ رد عمل اور جذباتی سیاست کے بجائے متحد ہو کر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کیا جائے اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن جدو جہد کی جائے۔
مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ جمہوریت کے تحفظ اور سیکولر کردار کی بقاکے لئے موثر اقدامات کرے مذہبی منافرت کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر وبیانات پر قدغن لگائے اور بروقت قانونی کارروائی کر کے ایسی سرگرمیوں کا سد باب کرے۔
عصری تعلیم اور اداروں کے قیام سے متعلق تجویز
دینی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اس کی طرف توجہ انتہائی اہم اور ضروری ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عصری علوم میں مسلمان دیگر شہریوں سے بہت پیچھے ہیں اور ان کی پسماندگی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے، جس سے براہ راست مسلمانوں کی اقتصادیات اور معاشیات متاثر ہے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کا جو طبقہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ان علوم و فنون کی تحصیل کے لئے داخلہ لیتا ہے ان اداروں کے دین دشمن ماحول میں دین سے غافل اوربیزار ہو جاتا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس مسلمانوں خصوصاً با ثروت افراد سے اپیل کرتا ہے کہ (۱) حسب ضرورت عصری تعلیم کے لئے پرائمری ،ہائر سکنڈری اسکول اور کالج قائم کئے جائیں، اور حکومت کے مرکزی یا صوبائی تعلیمی بورڈ سے منظوری حاصل کی جائے (۲) کامرس، انجینئر نگ، تکنیکل اور میڈیکل اداروں کے قیام کی کوشش کی جائے (۳) مروجہ نصاب کے مطابق تعلیم کا انتظام کیا جائے مگر طلبہ کی تربیت، وضع قطع، صوم صلوۃ اور اسلامی طرز حیات کو خصوصی طور سے محفوظ رکھا جائے۔ جس کے لئے اساتذہ کی تربیت کا الگ سے انتظام کیا جائے۔ (۴) بچیوں کے لئے الگ پردے کے ساتھ غیر اقامتی ادارے قائم کئے جائیں، اور ان کے لئے مناسب فطری تقاضوں کے پیش نظر دینی عصری اور امور خانہ داری پر مشتمل نصاب تعلیم مرتب کیا جائے اور اسلامی ماحول میں ان کی کردار سازی کا موثر انتظام کیا جائے۔
تجویز تعزیت
جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کایہ اجلاس ملک وبیرون ملک کی ان مقتدراوراہم شخصیات کے سانحہء ارتحال پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہارکرتاہے اورمغفرت اوربلندیٔ درجات کی دعاکرتاہے ۔ جو شخصیات اس سے قبل منعقد ہ اجلاس سے اب تک داغ مفارقت دے کر راہی دارآخرت ہوگئے ہیں بالخصوص ۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن قاسمی صاحب ؒ ،استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند ،حضرت مولانا مفتی عبدالرزاق خاں صاحب ؒ ، نائب صدرجمعیۃعلماء ہند ،حضرت مولانا مفتی سعیداحمد صاحب ؒ، سابق صدرالمدرسین دارالعلوم ،حضرت مولانا نذیرحسین صاحب ؒ ،سابق نائب صدرجمعیۃعلماء ہند ،حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری ؒ ، سابق امیرالہند واستاذحدیث دارالعلوم دیوبند،جناب الحاج حسن احمد قادری ؒ ، سابق ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء بہار،حضرت مولانا قاری معین الدین احمد قاسمی ؒ سابق صدرجمعیۃعلماء بہار،مولانا سید ولی رحمانی صاحب جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ،حضرت مولانا جابر حسین صاحب ؒ سابق صدرجمعیۃعلماء اڈیشا،حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی صاحبؒ سابق استاذادب دارلعلوم دیوبند،حضرت مولانا نظام الدین اسیر ادروی صاحب ؒ ،حضرت مولانا سلمان صاحب ؒ ناظم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپو،حضرت مولانا رفیق احمد قاسمی صاحب ؒ سکریٹری جماعت اسلامی ہند،حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی صاحب ؒ ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو،مولانامتین الحق اسامہ صاحب ؒ ، جاجموکانپور،مولانا معزالدین احمد قاسمی ، امارت شرعیہ ہند دہلی ،ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی ، رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ،مولانا شفیق عالم قاسمی صاحب ؒ صدرجمعیۃعلماء بیگوسرائے بہار،حضرت مولانا سیدمحمد یحی  ندوی صاحب ؒ بیگوسرائے بہار،حافظ امداداللہ خالد صاحب اوران کی ہمشیرہ ،مفتی محبوب الرحمن صدرجمعیۃعلماء امبیڈکر نگر کے دونوں جواں سال بچے ،اہلیہ مولانا محمد اسعد چنو جونپوری، حاجی شہزاد خان صاحب نوی ممبئی ،حاجی محمد امان اللہ صاحب ناظم جامعہ حسینیہ شری وردھن،مولانا محمد حذیفہ قاسمی ممبرا،اہلیہ اشفاق احمد خان ممبرا،انصاری محمد یوسف ٹھوکر مدنپورہ،والدہ محترمہ مولانا ارشد قاسمی آرگنائزر،حاجی محمد حبیب  والد محترم مولانا لیاقت علی قاسمی ،حاجی صغیر احمد انصاری عم  حافظ محمد عارف انصاری ،اہلیہ حافظ امان اللہ جامعہ سراج العلوم ،محمد فرحان بن مفتی محمد ہارون ندوی ،ماسٹر منیر عالم خسر مولانا اشتیاق احمد قاسمی ،حاجی اسعد اللہ ساکی ناکہ ،مولانا ناظر احمد خان صاحب نائب صدر مراٹھواڑہ ،مولانا عبد الباری قاسمی مالیگائوں ،مولانا عبدالحئی قاسمی الہاس نگر،حاجی محمد عارف انصاری سر پرست جمعیۃعلماء امبر ناتھ،عباس عبد الغنی کھتری رابوڑی،مولانا علی اختر صدر مدرس مسجد عمر فاروق رابوڑی،سید حسن ساحل ممبرا،مولانا نسیم حسنی میرا روڈ،مولانا حکیم محمود الحسن قاسمی موگرا پاڑہ،مولانا عبد الحمید ازہری مالیگائوں ،مولانا شفیق احمد بستوی استاد دار العلوم امدادیہ ،اہلیہ محمد فیاض احمد قاسمی بھیونڈی،حاجی الیاس کھتری کھارہمشیرہ امتیاز احمد ممبئی اردو نیوز،ریاض بھائی قریشی کھار،مولانا امتیاز احمد قاسمی مالونی،سید معین اشرف ممبرا،ایڈوکیٹ افروز صدیقی ، قاری عبدالکریم پھلودی ،والدہ مفتی حلیم اللہ ، حاجی اسماعیل زردے والے کلکتہ ، ہمشیرہ مولانا عبدالقیوم صاحب  مالیگاؤں ، مولانا محمد اسحق صاحب میوات، مولانا ظفرالدین صاحب، مولانا بلال احمدصاحب استاذدارالعلوم دیوبند، مولانا احمدحسینی صاحب مظاہری ، حافظ غلام احمد صاحب کلکتہ ، مولانا محمدطاہر صاحب مظفرنگر، 
اوردیگرتمام مرحومین کواللہ تعالیٰ جنت الفروس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطاکرے ۔ آمین ۔
تنظیمی استحکام سے متعلق تجویز
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس عام جمعیۃ کے کاموں کی وسعت کو دیکھتے ہو ئے تنظیمی استحکام کو از حد ضروری اور انتہائی قابل توجہ سمجھتا ہے، جمعیۃ علماء ہند کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے جماعت کے تنظیمی ڈھانچہ کے استحکام کی ضرورت و اہمیت ایک نا قابل انکار حقیقت ہے کسی بھی جماعت کے اغراض و مقاصد کتنے ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر اس کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط اور منظم نہیں تو وہ جماعت کبھی بھی اپنے عزائم اور مقاصد کو روبہ عمل نہیں لا سکتی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس عام اپنے کارکنان سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ جمعیۃ علماء کے دستور اساسی میں مذکور تعمیری و اصلاحی پروگرام پر تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ عمل کیا جائے اس کے بغیر نہ تو جماعتی ذہن سازی ہو سکتی ہے اور نہ ہی جماعتی اثر و رسوخ میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ریاستی، ضلعی، شہری اور مقامی جمعیتوںکے لئے لازم ہو گا کہ اپنی اپنی آبادی کا جائزہ لیکر وہاں تعلیمی ترقی، سماجی و معاشرتی اصلاح، اقتصادی بہبود، دینی جد و جہد کیلئے تعمیری و اصلاحی پروگرام کا خاکہ مرتب کریں اور ہر کارکن اپنے وسائل و صلاحیتوں سے پروگرام کو پوری یکسوئی و توجہ سے پا یہ تکمیل تک پہنچائے اورمقامی جمعیۃ، ضلع جمعیۃ کو اورضلع جمعیۃریاستی جمعیۃکو اورریاستی جمعیۃمرکزی جمعیۃکوسہ ماہی کارکردگی رپورٹ بھیجے ۔  نیز سال میں خصوصی طور پر اپنے حلقہ میں سیرت کانفرنس اور کارکنان کی میٹنگ کا لازمی طور پر اہتمام کرے، جماعت سے وابستہ تمام عہدیداران، کارکنان اور بہی خواہان جماعت کے تنظیمی استحکام کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔
اسلامی امتیازو تشخص اور اصلاح معاشرہ سے متعلق تجویز 
مسلمان معاشرتی اور اخلاقی اعتبار سے جس انتہائی پستی کو پہونچ چکے ہیں وہ ناقابل بیان ہے ،ایک بڑی تعداد کے ذہنی و فکری اور عملی زوال کا یہ حال ہے کہ وہ شرک و کفر کے مظاہر اور اعمال کھلے عام اپنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے ہیں ،ہر قسم کی برائیوں ،شراب نوشی،دروغ گوئی ،آپسی جنگ و جدال ،غیر اسلامی رسم و رواج ،بدعات و خرافات نے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ ذلت و پستی کی اصل وجہ دین سے دوری و مذہبی بے راہ روی ہے ،اس لئے علماء کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرض منصبی کو نبھائیں ،اور عوام کو بیدار کریں ۔جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس عامۃ المسلمین خصوصاً علماء کرام ،ائمہ مساجد اور جمعیۃ کے کارکنان سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر بستی،گائوں ،محلہ میں عوامی بیداری پیدا کریں ۔اور اصلاحی کمیٹیاں قائم کرکے اسلام کے بنیادی فرائض نماز ،روزہ ،حج ،زکوۃ کے ساتھ اپنی پوری زندگی اخلاق و کردار ،تجارت و کاروبار ،رہن سہن کو اسلامی رنگ میں ڈھالیں  اور گھروں میں دینی ماحول پیدا کریں ۔اس کے لئے موقع بموقع اصلاح معاشرہ کے عنوان سے جلسے ،جمعہ میں خطاب،لوگوں سے خصوصی ملاقات اور بیداری مہم چلائیں،جمعیۃعلماء کے اصلاح معاشرہ عشرہ پر توجہ دیں ،اور پورے اہتمام سے اس کومنظم کریں ۔
مرکزی مجلس عاملہ کے تمام فیصلوں کی توثیق سے متعلق تجویز 
جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس جس میں پورے ملک سے صوبائی جمعیتوں کے منتخب کردہ تقریباً دو ہزار اراکین مرکزیہ و مندوبین موجود ہیں ،جن میں اکثر صوبائی جمعیتوں کے صدور ونظماء شامل ہیں ۔یہ اجلاس مجلس عاملہ جمعیۃعلماء ہند کے جملہ مجالس اور فیصلوں کی نہ صرف توثیق کرتا ہے بلکہ ان پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتا ہے ۔مرکزی دفتر جمعیۃعلماء ہند نے جو خدمات انجام دی ہیں خصوصاً طلبہ کے لئے گراں قدر اسکالر شپ ،بے قصور گرفتار نوجوانوں کی رہائی کے لئے کامیاب پیروی  اور برباد بستیوں کی آباد کاری وغیرہ کو بنظر استحسان دیکھتا ہے ۔
  صدر محترم و ناظم عمومی کی مساعی جمیلہ پر ان کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہے ،اور اللہ تعالیٰ سے مزید خدمت کے لئے توفیق کی دعا کرتا ہے ۔
ملک کی عام معاشی بے چینی و مہنگائی سے متعلق تجویز 
ملک میں عام معاشی بے چینی اور مہنگائی ،ضروری اشیاء کی نایابی و کم یابی اور روز افزوں گرانی کی وجہ سے ملک کا پورا اقتصادی نظام ابتر حالت میں پہونچ چکا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے گائوں سے لے کر بڑے شہروں تک عام زندگی میں معاشی بحران کے سبب تعطل پیدا ہوگیا ہے ،ملک کے عام انسانوں کے روزمرہ کی الجھنیں اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان میں تلخی پیدا ہونا فطری ہے اگر حکومت اپنے معاشی منصوبوں میں اسی طرح ناکام ہوتی رہی تو ملک میں سماج دشمن اور فسطائی رجحان رکھنے والے عناصر کی طاقت بڑھ سکتی ہے ۔اورملک کا امن اومان خطرہ میں پڑسکتاہے ۔جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس عام معاشی بے چینی و ہوش ربا گرانی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ معاشی پالیسیوں پر فوری طور پر نظر ثانی کرے اور مؤثر اقدامات عمل میں لائے ،تاکہ عام معاشی بے چینی کا ازالہ ہوسکے اور مہنگائی کو قابو میں کیا جاسکے ۔
قومی یکجہتی  اورملک کی سا  لمیت سے متعلق تجویز
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ ا جلاس ملک کے موجودہ ہولناک اور وحشتناک حالات میں سکولرزم، جمہوریت اور قومی یکجہتی کی تحریک کو عام کرنا ، وقت کی اہم اور بنیادی ضرورت قرار دیتا ہے۔مجلس منتظمہ کی رائے ہے کہ ملک کی پر امن اور با وقار زندگی کی حفاظت کے لئے حقیقی قومی یکجہتی کی ترقی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،جس کو جمعیۃ علماء ہند ملک گیرپیمانے پر ایک عرصہ سے چلا رہی ہے، جیسے جیسے یہ تحریک آگے بڑھے گی فرقہ پرست طاقتیں مضمحل ہوںگی۔مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس ملک کے ترقی پسند عناصر، افراداور جماعتوں کو یقین دلاتا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند قومی اتحاد کی ہر کوشش میں ان کے ساتھ پورا تعاون کرتی رہے گی۔
تجویز شکریہ 
جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کا یہ اجلاس ان تمام معاونین ، کارکنا ن اوربہی خواہان کاشکریہ اداکرتاہے ، جنہوں نے اجلاس کو کامیاب بنانے میں نہ صرف شب وروز کی سرگرمی بلکہ غیرمعمولی ایثاروقربانی اورگراں قدرتعاون سے نوازاہے ، خوصیت سے 
جناب بشیر موسیٰ پٹیل صاحب ۔ منیجنگ ٹرسٹی صابوصدیق مسافرخانہ وسابق ایم ایل اے ۔
جناب ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب ۔ صدرانجمن اسلام وجناب فرید شیخ صاحب صدرامن کمیٹی 
جناب مولانا محموددریابادی صاحب جنرل سکریٹری علماء کونسل ممبئی ۔
جناب الحاج محمد شفیع ٹیمپووالے منیجنگ ٹرسٹی دکنی مومن جماعت۔
جناب الحاج سلیم بالوان صاحب  ، مالک بالواس ہوٹل ۔
عزت مآب جناب پولس کمشنرصاحب ممبئی وایڈیشنل پولس کمشنرساؤتھ ممبئی ۔
عزت مآب جناب سینئرانسپکٹراوران کا پوراعملہ آزادن میدان ۔
                                                                         شکریہ 
                                                          مولانا حلیم اللہ قاسمی ۔ناظم اعلیٰ جمعیۃعلماء مہاراشٹر
                                                      جناب الحاج گلزاراحمد اعظمی ۔ قانونی امدادکمیٹی جمعیۃعلماء مہاراشٹر